مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مکے میں 571 عیسوی میں پیدا ہوئے ۔ وہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ اچھے اخلاق کی وجہ سے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی وہ شرک اور شراب نوشی کو برا جانتے تھے ۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو انھوں نے اسے فورا قبول کر لیا۔ اس کے بعد وہ تن من دھن سے دین کو پھیلانے میں لگ گئے ۔
مکے میں خود حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثاروں کو بہت ستایا جا تا تھا۔ حضرت ابوبکر ہمیشہ اس بات کا
خیال رکھتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے پائے ۔ جب کبھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا، وہ فورا موقع پر پہنچ جاتے اور آپ کا ساتھ دیے۔
ایک مرتبہ دشمنوں نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا اورجسمانی تکلیف پہنچانے لگے۔ کسی میں ان کو روکنے کی ہمت نہ تھی لیکن حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کی پروا نہ کی ۔ وہ دشمنوں کے مجمع میں گھس گئے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان سے نکال لائے ۔ جب مکہ والوں کا ظلم اور زیادتی بڑھتی گئ تو اللہ کے حکم سے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ملے سے ہجرت کا ارادہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو اپنے سفر کا ساتھی چنا۔ ایک رات دونوں نے مکے کو الوداع کہا ، وہ جبل ثور پہنچے اور اس کے ایک غار میں تین راتوں تک ٹھہرے رہے ۔ یہ غار ، غار ثور کہلاتا ہے ۔ اس دوران میں بھی حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے ہر طرح سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا خیال رکھا۔
مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک عام مہاجر کی سی زندگی بسر کرنے لگے ۔ مدینے میں ایک مسجد تعمیر کرنی تھی جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کا ایک ٹکڑا پسند کیا۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے نہ صرف اس کی قیمت ادا کی بلکہ خودسرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
مسجد بنانے میں شریک رہے۔ ایک مرتبہ دشمنوں سے مقابلے کے لیے کثیر رقم کی ضرورت تھی ۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے مدد کرنے کے لیے کہا۔ اس نیک کام میں ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال و اسباب اٹھا لاۓ اور حضور کے قدموں میں ڈال دیا۔ آپ نے پوچھا، ابوبکر ! تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ انھوں نے جواب دیا، ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول کافی ہیں ۔“ اخیر عمر میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم بہت بیمار ہو گئے ۔ نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں آنے کی طاقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ رہی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں ۔حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بات کیسے ٹال دیتے ۔ چنانچہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ انھوں نے مسجد نبوی میں تین دن نماز پڑھائی ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مسلمانوں نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا۔ اس وقت انھوں نے مسجد میں بڑی اثر انگیز تقریر کی ۔ انھوں نے فرمایا، اے لوگو! میں تمھا را حاکم بنایا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں ہوں ۔ اگر میں نیک کام کروں تو اس میں میری مدد کرو اور اگر مجھ سے کوئی بھول ہو جاۓ تو مجھے ٹو کو “ خلیفہ بننے کے بعد بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سادہ زندگی گزارتے رہے ۔ وہ موٹے جھوٹے کپڑے پہنتے اور معمولی کھانا کھاتے تھے۔غر یبوں اور مسکینوں پر بے حد مہربان تھے ۔ وہ محتاجوں کی ضرورت اس طرح پوری کرتے کہ دوسروں کو خبر تک نہ ہوتی۔
- حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی مد ت دو برس اور تین مہینے تھی ۔ اتنی مختصر مدت میں انھوں نے جس خوبی سے اپنی ذمے داریوں کو پورا کیا ، اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو کئی باتوں میں اولیت کا شرف حاصل ہے۔ مردوں میں سب سے پہلے انھیں نے اسلام قبول کیا۔ قرآن مجید کو سب سے پہلے کتابی شکل میں جمع کرایا اور اسلامی ریاست میں بیت المال قائم کیا۔ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں 'صدیق' کا لقب دیا تھا۔ وہ پہلے شخص ہیں جن کو پیارے نبی نے کسی لقب سے نوازا۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ تقریبا تیئیس سال اللہ کے رسول کی پاک صحبت میں رہے ۔ وہ ایک دن کے لیے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے جدانہیں ہوۓ ۔ بڑی سے بڑی مشکل میں بھی انھوں نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا اسی لیے ایک موقع پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بے شک جان و مال کے لحاظ سے ابوبکر سے زیادہ مجھ پر کسی اور کا احسان نہیں ہے ۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رونے گے اور عرض کی ، ”یا رسول اللہ! یہ جان و مال کیا کسی اور کے لیے ہیں؟“ ایک موقع پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”ابوبکر! میں نے تمام لوگوں کے احسانات کا بدلہ چکا دیا ہے لیکن تمھارے احسانوں کا بدلہ اللہ تعالی دے گا۔“
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال 634 ء میں ہوا۔ انھیں مسجد نبوی میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
No comments:
New comments are not allowed.